عظیم انسان ڈاکٹر فاروق خان کا تعارف اور علمی خدمات
مرحوم 2010 میں طالبان کی گولی کا نشانہ بنے۔
( اُن پر یہ مضمون 2016 میں لکھا گیا تھا)
صوابی زرخیز مٹی کی سرزمین ہے ۔اس خطہءِ عرض نے کئی باصلاحیت افراد پیدا کئے۔سر صاحبزادہ عبدلقیوم ،کرنل شیر خان ،جناب فضل علی حقانی ،مولانا طاھر پنج پیری ،شیخ حمداللہ جان صاحب،میجر (ر) عامر،اسد قیصر،معین اختر ، پرائڈ آف پرفارمنس علی حیدر جوشی، یاسر شاہ ،جنید خان اور اس طرح کے کئی دوسرے نام ہیں جن کی اپنے اپنے علم ،فن اور مہارت کے میدان میں ملک و قوم کیلئے خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔اس فہرست میں ایک نام ڈاکٹر محمد فاروق خان کا ہے ۔1956 میں صوابی میں جنم لینے والے ڈاکٹر فاروق مرحوم کی شخصیت کے کئی رنگ اور کئی جہتیں ہیں ۔مصنف ،مقرر ، داعی ، مصلح ، مکالمہ کار، واعظ، مذھبی سکالر، دانشور، ماہرِ تعلیم، سیاستدان، معالج، سوشل ورکر، ٹی وی پرفارمر غرض وہ متنوع رنگوں کا ایک خوبصورت گلدستہ تھے ۔
ڈاکٹر صاحب نے کیڈٹ کالج حسن ابدال اور بعدازاں کیڈٹ کالج کوھاٹ میں داخلہ لیا ۔1979 میں خیبر میڈیکل کالج پشاور سے ایم بی بی ایس پاس کیا اور 1984 میں سائکاٹری پڑھنے یونیورسٹی آف ویانا چلے گئے ۔زمانہِ طالب علمی میں جمیعت کے سرگرم کارکن اور ایک عرصے تک جماعت اسلامی سے منسلک رہے ۔نوے کی دھائی میں ڈاکٹر فاروق کی ملاقات معروف مذہبی سکالر جناب جاوید احمد غامدی صاحب سے ہوتی ہے اور انکی فکر سے اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ تا مرگ اس فکر کی اشاعت اور تبلیغ میں سر گرم رہے۔
آپ غامدی صاحب کے تحقیقی ادارے “المورد ” کے بورڈ آف گورنرز کے ممبر رہے اور امام حمیدالدین فراحی اور امین احسن اصلاحی کے فہمِ اسلام کا علم لئے سیمینارز ،ورکشاپس اور ٹی وی پرگراموں میں شرکت کرتے رہے ۔ڈاکٹر صاحب نے اس فکر کی ترویج اور شرح میں کتابیں لکھی اور تقاریر کیں لیکن ایسا ہر گز نہیں کہ وہ اس فکر کے اندھے مقلد تھے ۔خود صاحبِ فکر ہونے کی وجہ سے وہ اس فکر کی مختلف آراء سے اختلاف کرنے کیساتھ ساتھ اس فکر پر مثبت اور تعمیری تنقید کی قدر کرتے تھے ۔
وسعت نظر، تحمل، استدلالی لب ولہجہ ،دعوتی مزاج اور آدابِ اختلاف آپکا خاصا تھا ۔ڈاکٹر صاحب امن کے پیغام بر تھے اور عمر بھر امن و سلامتی کا درس دیتے رہے ۔وہ مذہبی انتہاپسندی اور خاص طور پر جہادی تنظیموں کے طرزِ عمل کے سخت ناقد تھے لیکن انکا یہ اختلاف ہمدردی اور خیرخواہی جیسے لطیف جذبوں سے مزین تھا اور آپ ریاست کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے والوں کو گولی کی بجائے حکمت اور دانش سے راہِ راست پر لانا چاہتے تھے ۔
جراتمند اس قدر تھے کہ تقریباً ہر اس موضوع پر قلم اٹھایا جس پر ہمارے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے اور دلیل کے زیور سے آراستہ لہجے اور دو ٹوک الفاظ میں اپنا موقف بیان کیا ۔اسلام میں خواتین کا مقام و مرتبہ ،حدودوتعزیرات کے پیچیدہ نظریات ،جہاد و قتال اور جدید اذھان کا اسلام کے بارے میں شبہات اور سوالات ،ان سب موضوعات پر ڈاکٹر صاحب نے تفصیل کیساتھ لکھا اور درجن بھر کتابیں تصنیف کیں ۔آپکی خواہش تھی کہ علومِ اسلامیہ کو عام فہم بنایا جائے اور اس خواہش کے پیشِ نظر آپ نے قرآن مجید کے رائج اردو تراجم کی خوبیوں کو اپنے ترجمہء قرآن میں اکھٹا کیا تا کہ ایک عام پڑھا لکھا آدمی قرآن مجید کیساتھ آسانی سے وابستہ ہو سکے ۔ پی ٹی ائی کا ابتدائی دستور بھی ڈاکٹر فاروق نے مرتب کیا تھا۔
سینکڑوں طالب علموں کی کفالت بڑی خاموشی کیساتھ آپ سے وابستہ تھی ۔اسی طرح کئی ایک مریضوں کی نفسیاتی امراض کیساتھ ساتھ افلاس جیسی بیماری کے بھی آپ معالج تھے ۔سوات آپریشن اور سیلاب متاثرین کیلئے آپکی خدمات انکے جذبہ ء خدمت خلق کے ثبوت ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب نے کیڈٹ کالج حسن ابدال اور بعدازاں کیڈٹ کالج کوھاٹ میں داخلہ لیا ۔1979 میں خیبر میڈیکل کالج پشاور سے ایم بی بی ایس پاس کیا اور 1984 میں سائکاٹری پڑھنے یونیورسٹی آف ویانا چلے گئے ۔زمانہِ طالب علمی میں جمیعت کے سرگرم کارکن اور ایک عرصے تک جماعت اسلامی سے منسلک رہے ۔نوے کی دھائی میں ڈاکٹر فاروق کی ملاقات معروف مذہبی سکالر جناب جاوید احمد غامدی صاحب سے ہوتی ہے اور انکی فکر سے اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ تا مرگ اس فکر کی اشاعت اور تبلیغ میں سر گرم رہے۔
آپ غامدی صاحب کے تحقیقی ادارے “المورد ” کے بورڈ آف گورنرز کے ممبر رہے اور امام حمیدالدین فراحی اور امین احسن اصلاحی کے فہمِ اسلام کا علم لئے سیمینارز ،ورکشاپس اور ٹی وی پرگراموں میں شرکت کرتے رہے ۔ڈاکٹر صاحب نے اس فکر کی ترویج اور شرح میں کتابیں لکھی اور تقاریر کیں لیکن ایسا ہر گز نہیں کہ وہ اس فکر کے اندھے مقلد تھے ۔خود صاحبِ فکر ہونے کی وجہ سے وہ اس فکر کی مختلف آراء سے اختلاف کرنے کیساتھ ساتھ اس فکر پر مثبت اور تعمیری تنقید کی قدر کرتے تھے ۔
اس وقت کی پختونخواہ حکومت اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے مابین سوات میں قیامِ امن اور نفاذِ شریعت کا معاہدہ ہوا تو اس میں طالبان کی طرف سے سوات میں ایک اسلامی یونیورسٹی کے قیام کی شرط رکھی گئی ۔ جس کیلئے بطور وائس چانسلر دونوں فریقین نے ڈاکٹر فاروق کا نام تجویز کیا ۔سوات یونیورسٹی ڈاکٹر فاروق کیلئے ایک رومانس کی حیثیت رکھتی تھی ۔آپ اس یونیورسٹی کو مرکز بنا کر شدت پسند مذہبی عناصر کو راہِ اعتدال پر لانا چاہتے تھے ۔اور چاہتے تھے کہ یہ ادارہ پختون معاشرے کو ایسے ماہرین دے جو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اسلام کی نمائندگی کر سکیں ۔ڈاکٹر صاحب اس یونیورسٹی کو اصل منصوبے کے مطابق اعلیٰ دینی تعلیم کی ایک معیاری درسگاہ بنانا چاہتے تھے ۔یہ کہنے میں مبالغہ نہ ہوگا کہ آپ نے اس ادارے کی چاہت پر اپنی زندگی نچھاور کر دی ۔
علم دشمنوں کی دھمکیوں کے باوجود ڈاکٹر فاروق خان جان ہتھیلی پر رکھ اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھے ۔حکومت نے سوات آپریشن کےبعد گرفتار خودکش حملہ آوروں کے ذہن سے انتہاپسندی کے اثرات زائل کرنے اور انکی درست فکری تربیت کا سلسلہ شروع کیا تھا جس میں ڈاکٹر صاحب بھر پور اور متحرک کردار ادا کر رہے تھے ۔ دھشت گردوں سے ایسے روشن چراغ کب برداشت ہونے تھے ۔وہ ڈاکٹر صاحب کی جان کے درپے ہوگئے ۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک نڈر مجاہد کی زندگی گزاری اور شہادت کی موت سے ہمکنار ہوئے ۔2 اکتوبر 2010 کو دھشتگردوں نے انکو مردان میں انکے کلینک کے اندر شہید کر دیا ۔سوات کی تحریک طالبان کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ انکے ذاتی روابط تھے ۔وہ حکومت اور طالبان کے مابین پل کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔مولانا صوفی محمد جب ایم ایم اے دورِ حکومت میں قید تھے تو ڈاکٹر فاروق انکی رہائی کیلئے کوششیں کرتے رہے ۔اسی طرح فضل اللہ کی والدہ اور بچوں کی رہائی کیلئے انہوں نے اتنی کوششیں کیں کہ ان پر طالبان کا حامی ہونے کا شک کیا جانے لگا ۔وہ اس اطمینان کا اظہار بھی کرتے رہے کہ طالبان کے سرکردہ لوگ مجھے جانتے ہیں کہ میں صرف دلیل کی بات کرنا جانتا ہوں ،وہ میرے بارے میں حسنِ ظن رکھتے ہیں ۔لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ حسنِ ظن ڈاکٹر صاحب کی جانب سے یکطرفہ تھا ۔
حکومتِ پاکستان نے بعد از شہادت آپ کو تمغہِ امتیاز سے نوازا ۔ ڈاکٹر فاروق کا قتل انسان دوستی ، دردمندی ، خیر خواہی، وسعت نظری ، نرم کلامی اور سلاست فکری کا قتل ہے ۔انکے جانے سے ہم نے بیک وقت کتنے علوم ، تجربوں اور مہارتوں کو کھو دیا ۔انکی موت کے ذمہ داروں کو کوئی سمجھائے کہ تمہیں جس بات سے اختلاف تھا وہ تو زندہ ہے ،انکی کتابوں میں ،خطبات میں اور ان سے متاثر خلقِ خدا میں ۔اس بات کو موت صرف اس وقت آسکتی ہے جب کوئی اس سے بہتر بات لوگوں کے سامنے رکھے ۔پہلے انکو اگر ہزاروں لوگوں نے پڑھنا تھا تو اب کروڑوں لوگ پڑھینگے