گلگت بلتستان کے نامور شاعر ،علمی و ادبی شخصیت حشمت کمال کی یادیں

گلگت: ارض بلتستان کے نامور شاعر ،علمی و ادبی شخصیت،شفیق استاد پروفیسر حشمت کمال الہامی جو سی ایم ایچ ہسپتال سکردو میں زیرِ علاج تھے یکم اگست کو اس جہان فانی سے انتقال کر گئے انتقال کی خبر سن کر سب چاہنے والوں کے دل افسردہ اور رنجیدہ ہوگئے ۔

پروفیسر حشمت علی صاحب اب ہم میں نہ رہے مگر انکے علمی کارنامے اور تصنیفات ہمیشہ باقی رہے گی اور انہی یادگاروں میں پروفیسر صاحب بھی ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔

اللہ ربلعزت کے حضور دعا گو ہے کہ مرحوم کو اپنی جوار رحمت میں اعلی’ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے

آہ پروفیسر حشمت کمال الہامی، ازقلم: ایس ایم موسوی

پچھلے سال ماہ اگست کے آخری دنوں کی بات ہے کہ ہمارے گاوں میں ایک شادی بیاہ کی تقریب میں آپ سے مختصر ملاقات ہوئی۔ ہم دونوں ایک ہی پلیٹ میں کھانا کھارہے تھے۔ مجھے کھانا سے زیادہ ان کی نصیحتیں اور مفید مشوروں سے لذت محسوس ہورہی تھی۔ آپ کی باتیں سن کر میں اپنے اندر فوری تبدیلی محسوس کررہا تھا۔ ان کے علم و ادب اور فکر و نظر کی گہرایوں کا اندازہ لگانا مجھ جیسے لوگوں کی بس میں نہیں۔ دوران گفتگو آپ نے میری سوشل ایکٹویٹی کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے مزید اچھے انداز میں جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔ اور میری چند تحاریر کا حوالہ دیتے ہوئے کمی کوتاہیوں کی نشاندہی کرکے آئندہ بہتری کےلیے راہنمائی بھی فرمائی۔ رات کافی دیر ہوچکی تھی چونکہ آپ نے سکردو واپس جانا تھا اس لیے انہوں نے مجھے ایک عنوان دیکر اس پہ ایک صفحہ کالم لکھنے کا حکم دیا اور دوسرے دن دوبارہ ملاقات کرنے کا وعدہ کرکے وہ رخصت ہوگئے۔ میں دل میں سوچ رہا تھا کاش وہ رات اتنی لمبی ہوجاتی کہ میں استاد محترم سے مزید کسب فیض کرتا۔ خیر استاد کے جانے کے بعد تو مجھے رات جلدی ختم ہونے کا انتظار تھا اور دوسرے دن مقررہ وقت آنے کا شدت سے انتظار کرتا رہا۔ اسی دوران میرے گھر پہ کسی خاص مہمان کی آمد ہوئی جس کے باعث میں مقررہ وقت پر ان کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکا تو استاد محترم نے میرے سسر کے ذریعے مجھے کال کروایا۔ کال اٹھاتے ہی سسر صاحب نے غصیلہ لہجے میں کہا کہ آپ کہاں رہ گئے ہو حشمت صاحب انتظار کررہے ہیں۔ یہ بات سن کر مجھے شدید جھٹکا لگا کہ آخر اس عظیم شخصیت کو میرا انتظار کرنا پڑا ہے میں مہمانوں سے فوری اجازت طلب کرکے ان کی خدمت میں حاضر ہوا استاد محترم اپنے مخصوص انداز میں گاوں کے چند بزرگوں کے درمیان محو گفتگو تھے۔ میں نے عذر خواہی کی، استاد نے انتہائی شفقت آمیز لہجے میں پاس بلایا اور دئے گئے عنوان پر لکھے کالم کے متعلق پوچھا میں نے چار صفحوں پر مشتمل کالم ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔ آپ نے اپنی قیمتی اوقات میں سے وقت نکال کر بندہ حقیر کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انتہائی نفیس و قیمتی انعام <سہ ماہی جریدہ موج ادب> سے نوازا اور گرائمر کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے آئندہ خیال رکھنے کا کہا۔ اور ساتھ ہی آپ نے بندہ حقیر کے بارے میں اپنی تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے چند جملے بھی اس کتاب پر تحریر فرمائی۔ میری زندگی میں پہلی بار کسی نے تعریفی انعام سے نوازا تو وہ استاد محترم ہی تھے۔ آپ کی اس حوصلہ افزائی سے میرا حوصلہ کے ٹو کی مانند بلند ہوا۔ آپ نے اپنے بارے میں لکھی گئی نفیس کتاب کا مطالعہ کرکے ایک تنقیدی کالم لکھنے کا حکم دیا مگر اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد کسی میں مجال ہے کہ ان کی شخصیت کو تنقیدی نگاہ سے دیکھیں؟ میں اس کتاب کا کئی بار مطالعہ کرچکا ہوں ہر بار مجھے اس میں نئی چیز دیکھنے اور سمجھنے کو ملتی تھی۔ میں نے ہر چند کوشش کی لیکن ہمت نہیں ہوئی کہ ان کے بارے میں تنقیدی کالم لکھوں میرا قلم اور الفاظ ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ اس لیے جہاں بھی استاد کو دیکھتا، نظریں چرا کر چھپ جانے کی کوشش کرتا تھا کہ کہیں استاد مجھ سے تنقیدی کالم کے متعلق نہ پوچھیں۔ ایک دن حسینی چوک سکردو سے اچانک استاد کا سامنا ہوا آپ نے میرا ہاتھ تھام کر پہلا سوال یہی پوچھا شاہ صاحب آپ کو ایک چھوٹا سا کام کرنے کا کہا تھا کئی دن گزر چکے ہیں۔ میں نے عرض کیا استاد محترم آپ کی نگاہ میں یہ چھوٹا ہوسکتا ہے مگر میرے لیے تو زندگی کا سب سے بڑا اور مشکل کام ہے میں معزرت چاہتا ہوں آپ کے متعلق تنقیدی الفاظ میں کہاں سے لاسکتا ہوں۔ انہوں نے اپنے مخصوص مسکراہٹ اور شفقت آمیز لہجے میں کہا! شاہ صاحب ایک لکھاری کے پاس الفاظ کا زخیرہ ہوتا ہے آپ بلاوجہ تکلف سے کام لے رہے ہو میں انتظار کروں گا آپ جلدی سے لکھ کر مقامی اخبارات میں بھی چھپوالیں۔ اب تو میرے لیے کام اور بھی مشکل ہوگیا ایک تو ایک ایسی شخصیت کے متعلق تنقیدی کالم لکھنا جو سب کی نظروں میں عزیز ہو، اور دوسرا اسے مقامی اخبارات میں شائع کروانا۔ میرے لیے تو یہ بلکل ناممکن تھا اور واقعا مجھ سے ہمت بھی نہ ہوئی۔ ہائے صد افسوس کہ استاد محترم ہمیں کرب کی عالم میں اپنی یادوں کا سہارا چھوڑ کر چلے گئے۔ چند دنوں قبل آپ کی بیماری کا سن کر میں بہت پریشان ہوا اس خبر کے سنتے ہی دل بیٹھا جارہا تھا۔ خدا سے گڑ گڑا کر دعائیں مانگی، مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہم عید کے دن خوشیاں منانے کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ اچانک آپ کے انتقال کی خبریں گردش کرنے لگی۔ یہ افسوس ناک خبر سن کر میری روح تڑپ اٹھی اور دل بے چین ہوگیا۔ سانسیں رک گئی۔ اس خبر پر یقین کرنا میرے لیے مشکل تھا۔ دل کسی طرح بھی ماننے کو تیار نہیں تھا۔ مگر کیا کرے کچھ ہی لمحوں میں ان کے نماز جنازہ اور تدفین کے مناظر دیکھنے کو ملے تب دل پہ ہاتھ رکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے اس غمناک خبر پر یقین کرنا پڑا، ہماری عید سوگ میں تبدیل ہوگئی۔ آنکھوں سے بے ساختہ آنسو نکل پڑے۔ اور میں اپنے دل کو سمجھانے کی کوشش کررہا تھا کہ دنیا میں آنے والے سب ہی نے اللہ کے ہاں واپس جانا ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ اللہ نیک لوگوں کو جلدی اپنے پاس بلا لیتا ہے۔ جیساکہ پانچ جولائی کو ایک آنلائن مشاعرے میں آپ نے خود اس طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا۔
(بحکم رب لحد میں جب کبھی خلوت نشین ہوں گے
تمہارے درمیان اس وقت یاراں ہم نہیں ہوں گے۔)
آج استاد ہمارے درمیان نہیں، ہماری نظریں انہیں ڈھونڈ رہی ہیں مگر ایک جگہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ “ہمیں مشکل سے پاوگے کہ آساں ہم نہیں ہوں گے” ہاں واقعا ہم نے بڑی مشکل سے آپ کو پایا تھا استاد محترم! یہ آپ کے جانے کا وقت تو نہیں تھا۔ آپ کے جانے سے شہر میں سوگ کا سماں ہے۔ آپ کے جانے سے جو خلا پیدا ہوگئی ہے اسے کوئی پُر نہیں کرسکتا، آپ کے جانے سے ادبی محفلیں یتم ہوگئی ہیں۔ علم آگاہی کا سمندر خاموش ہوگیا اور شاعری کا ایک عظیم باب بند ہوگیا ہے۔ آپ کی علمی وسماجی خدمات ناقابل فراموش ہے۔ آپ کسی تعریف کا محتاج نہیں۔ گذشتہ چالیس سالوں سے اب تک بلا غرض اور صلہ و ستائش کی تمنا سے آزاد ہوکر بےلوث انداز میں بڑی محبت اور عقیدت سے انسانیت، علم، اہل علم، ادب، اہل ادب، ادبی تنظیمیں، فلاحی اداروں، تعلیمی اداروں، اساتذہ و طلبا اور ہر ضرورت مند کی ضرورت کی تکمیل اور اپنی بساط کے مطابق ہر شخص کی خدمت اور تعاون کرنے میں کوشان تھے۔آپ کے متعلق کچھ لکھنے کے لیے میرے پاس الفاظ کم پڑتے ہیں اس لیے آخر میں آپ کے ایک کلام کے ساتھ اس کالم کو سمیٹ رہا ہوں۔۔۔


کتنی جلدی کٹ رہا ہے زندگانی کا سفر
رات تھی وہ وصل کی، یا ہجر کی، پہنچی سحر
جارہے ہیں باغ کی رنگینیوں کو چھوڑ کر
دیکھ پائے بھی نہ تھے گلزار کو اہل نظر
ہم سمجھتے تھے سمندر جس کو اے اہل جہاں
ایک قطرہ بھی نہ تھا، سینے میں وہ علم و ہنر
ہر طرف صحرا کا منظر، خاک اڑتی ہے جہاں
سایہ افگن کل وہاں صف بستہ تھے کتنے شجر
جس نے کی خدمت انسانیت، اخلاص سے
وہ یقینا پائےگا کونین میں اس کا ثمر
آج حاصل کیجئے! جلدی گہرہائے کمالؔ
کس کا کیا انجام ہوتا ہے کسی کو کیا خبر

Leave A Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: